کبھی روگ نہ لگانا پیار کا (session1)بقلم ملیحہ چودھری
** قسط6
""میری ننھی سے گاڑیاں
میرے خوابوں کی پڑیاں
میرے گھر کی اُڑتی چہچہاتی چڑیاں
میرے آنگن کے پھولوں کی کلیاں
کانٹوں میں کھلی مہکتے ہوئے گلاب کی پنکھڑی
جیسی
معصوم سی نور سی بھری پیاری سی دلاری سی
بٹیاں
میری ننھی سی گاڑیاں ،،***
بقلم
ملیحہ چودھری ***
دن یوں ہی گزر رہے تھے۔۔۔۔۔۔پتہ ہی نہیں چلا کب دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینے میں گزرے
آج اُسکو چوٹ لگے ہووے ایک مہینہ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔
اس بیچ عالیان کی ایک بار بھی کال نہیں آئی تھی۔۔
جس وجہ سے اس معصوم سے لڑکی کا دل بہت اُداس اُداس سا رہنے لگا تھا۔۔
جو شخص ایک دن بھی دادو اور اس سے بات کیے بنا نہیں رہ سکتا تھا۔۔۔۔
آج اس ہی شخص کو کال کیے ایک مہینہ گزر گیا تھا۔۔۔۔اُس معصوم سی لڑکی کے دل میں طرح طرح کے خیالات گھر کر رہے تھے۔۔۔۔اور وہ اب زیادہ تر اُداس اُداس سی رہنے لگی تھی۔۔۔۔ظاہر سی بات ہے۔۔۔ جو شخص کبھی تمہیں اتنی اہمیت دیتا ہو۔۔۔ اگر کبھی زندگی میں وہی شخص کو کسی وجہ سے بات نہ کرنی پڑے یا چاہنے کے باوجود بھی بات نہ کر سکے تو "اہمیت دیتے جانے والے شخص کے دل میں برے برے خیالات تو گھر کرینگے ہی۔۔۔۔۔ اور پھر یہاں تو اپنوں کی محبّت سے ترسی ہوئی ایک حساس لڑکی تھی۔۔
مائشا کمال شاہ کے دل میں عالیان کی طرف سے یہ مایوسیاں دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی۔۔ کہ عالیان ملک شاہ ساری دنیا کو چھوڑ سکتا ہے ۔۔۔ پر اُن دونوں(دادو اور مائشا) کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا تھا۔۔کیونکہ وہ دونوں تو اُسکے لیے اللّٰہ کے نزدیک ہونے کا ایک ذریعہ تھی۔۔۔
** """ زندگی میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے
جو دل کی روح بن جاتا ہے
جو اچھے برے کا بتاتا ہے
جو خدا تک پہنچنے کا راستہ بن جاتا ہے
اس شخص کو ہم
چاہ نے کے باوجود بھی نہیں چھوڑ سکتے
کیونکہ
وہ ہماری روح کا مسیحا ہوتا ہے""**
بقلم
ملیحہ چودھری**،،
دور افق پر چاند اپنی آب و تاب سے خوب چاندنی پھیلا رہا تھا۔۔۔۔ آسمان میں ٹم ٹماتےتاریں
تیز تیز چلتی ٹھندی ہوائیں سردی کے اور بڑھنے کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔۔ایسے میں وہ کھڑکی کے نزدیک بیٹھی دور افق میں روشنی پھیلاتے چاند کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ساتھ ہی ساتھ اپنے بابا کی گائی ہوئی لوری کو بھی گنگنائے جا رہی تھی۔۔۔جس کو اُسکے بابا تب گاتے تھے ۔۔۔ جب وہ اپنے بابا سے ناراض ہو جایا کرتی تھی۔۔آج اسکو شدّت سے اپنے بابا کی بہت یاد آ رہی تھی۔۔۔آنسو آنکھوں سے لڑیوں کی صورت میں بہ رہے تھیں۔۔ بابا آپ اپنی شہزادی کو کیوں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔۔۔۔؟؟؟
وہ روتی ہوئی دور افق میں ٹم تماتے تاروں کو دیکھ کر اپنے بابا سے سوال کر رہی تھی۔۔۔لیکن آج وہاں سُننے والا کوئی نہیں تھا۔۔بابا اگر آپ جا ہی رہے تھے تو اپنی گاڑیاں کو بھی ساتھ لے جاتے۔۔اُسنے پھر سے آسمان کو دیکھتے ہوئے اپنے بابا سے شکواں کیا۔۔بابا آج آپکی یہ شہزادی بلکل اکیلی ہو گئی ہے۔۔۔آنسوؤں کی لڑی آنکھوں سے اب بھی جاری تھیں۔۔بابا آپ سن رہے ہیں نہ ۔۔اب روتے ہووے اُسکی ہچکیاں بندھنی شروع ہو گئی تھی۔۔بابا م مم میں کیا کروں --؟؟کہاں جاؤں--؟؟کون ہے میرا اس دنیا میرا --؟؟وہ آج آسمان کو دیکھتے ہووے اپنے بابا سے سوال پر سوال کیے جا رہی تھی۔۔یہ جانتے ہوئے کہ جانے والے کبھی کسی کی نہیں سنتے صرف ایک کے علاوہ۔۔۔ اور وہ ہے ساری کائنات کا خالق حقیقی جو سب کی سنتا ہیں۔۔ وہ اس قدر ڈوبی ہوئی تھی اپنے بابا سے سوال کرنے میں۔۔ ک اسکو پتہ ہی نہیں چلا کب نور گیٹ کھول کر اُسکے برابر میں آکر بیٹھ گئی۔۔۔ اُسکا سکتہ تو تب ٹوٹا جب نور کے موبائل کی رنگ وائبریٹ ہوئی۔۔ٹناننن ٹنننننن ٹننننننننن...مائشا اپنے کمرے میں موبائل کی آواز کو سن کر گھبراتی ہوئی ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔۔نور کو دیکھ کر اُسنے جلدی سے اپنے آنسوؤں کو صاف کیا۔۔اور پھر نور سے بولی۔۔ت تم کب آئی ن نور آپی۔۔؟؟ نور نے پیار سے اُسکا ہاتھ اپنے ھاتوں میں لیا۔۔۔جو بلکل برف کی طرح ٹھنڈا ہو رہا تھا۔۔ مایو تمہارے لیے کھانا لے کر آئی تھی تم نے صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا "اور پھر تمہیں دوائی بھی تو لینی ہے ۔۔۔اس لیے آئی تھی ۔۔لیکن تم اتنی گھبرا کیوں رہی ہو۔۔؟؟ اور تم آسمان کو دیکھ کر اس سے کیا باتیں کر رہی تھی۔۔؟؟نور نے مائشا کے ھاتوں کو تھوڑا سا دباتے ہووے پیار سے اس سے پوچھا۔۔۔ اسکو نور کے اس لہزے سے تھوڑی ڈھارس سی ہوئی۔۔اور خود کو سنبھالتے ہوئے بولی۔۔کُچّھ بھی نہیں بس آج بابا کی بڑی شدّت سے یاد آ رہی تھی ۔۔ تو جو لوری وہ مجھے ہمیشہ سنایا کرتے تھیں "تو میں وہی لوری گا رہی تھی۔۔اُسنے ساری باتوں کو گول کرتے ہوئے نور سے کہا۔۔اچّھا۔۔!! نور نے بھی اس سے زیادہ پوچھا نہیں۔۔ وہ بہت اچھے سے جانتی تھی کہ وہ کُچّھ نہیں بتائیگی ۔۔ اس لیے وہ اچّھا کے بعد کُچّھ نہیں بولی۔۔۔ پھر سے نور کا موبائل چنگھڑنے لگا تھا۔۔۔ ٹننننننننن ننننن نننن۔۔۔۔۔ مائشا نے ایک نظر موبائل کی طرف دیکھ کر نور کو دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا ۔۔ کس کا فون ہیں۔۔؟؟؟ عالیان کا ۔۔۔!! نور نے اُسکی طرف اپنا موبائل بڑھاتے ہووے کہا۔۔ لو کرو بات۔۔ وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔۔۔ مائشا نے ڈر تے ہوئے موبائل کو تھام لیا۔۔۔ اور یس کا بٹن پریس کرتے ہووے کان سے لگا کر بولی۔۔ ا السلام علیکم ا عالیان۔۔۔ سلام کرتے ہوئے اُسکی آنکھوں سے آنسو پھر سے بہنے لگے تھیں۔۔۔دوسری طرف سے عالیان نے بھی سلام کا جواب دیا ۔۔ وعلیکم السلام مایو۔۔۔ طبیعت کیسی ہے تمہاری۔۔۔؟؟ اتنا پوچھنا تھا کہ مائشا کی رونے کی وجہ سے اس پر کپکپی طاری ہوگئی تھی۔۔مائشا کی رونے کی آواز کو سن کر عالیان کی آنکھوں میں سے بھی آنسو بہنے لگے تھیں۔۔۔دونوں ہی طرف خاموشی نے کُچّھ دیر کے لیے اپنا سر اٹھایا تھا۔۔۔جس خاموشی نے سر اٹھایا تھا اسکو عالیان کی بھاری آواز نے توڑا۔۔۔ مایو پلیز رونا بند کرو مجھے تکلیف ہوتی ہیں۔۔۔ایک لمحہ کو تو مایو کی آنکھوں سے آنسو تھم سے گئے تھیں۔۔۔ لیکن اگلے ہی لمحے پھر سے بہنے شروع ہو گئے تھے ۔۔ عالیان نے اُسکے رونے کی آواز کو سن کر اپنی آنکھوں کو بےبسی سے زور سے بند کر لی تھی ۔۔۔ اب اُسکی آنکھوں سے بھی آنسو لڑی کی صورت میں بہنے لگے تھیں۔۔۔
وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔
**
" کیسی ہیں یہ بےبسی
جو مجھ پر اس گھڑی طاری ہوئی
چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہا میں
یا خدا کیسا امتحان توں میرا لے رہا،،
**
بقلم
ملیحہ چودھری
دونوں ہی طرف آنسووں کی بارشیں ہونے لگی تھی۔۔۔ مائشا سے رونے کی وجہ سے کُچّھ بھی نہیں بولے جا رہا تھا۔۔اس لیے اُسنے فون کاٹ کر نور کی طرف بڑھا دیا۔۔ نور بھی ان دونوں کو روتے ہووے دیکھ کر خود بھی رونے لگی تھی۔۔۔اس سے نہیں دیکھی جا رہی تھی مائشا کی یہ حالت۔۔۔اس ایک مہینے میں نور کو مائشا سے ایک الگ ہی محبّت سی ہو گئی تھی۔۔لیکن وہ بھی چاہنے کے باوجود کُچّھ نہیں کر سکتی تھی۔۔ایک بار اس نے کوشش بھی کی تھی۔۔۔ابھی پندرہ دن پہلے ہی کی تو بات ہے ۔۔۔ جب تک مائشا کی چوٹ کے زخم بھی نہیں بھرے تھے ابھی بھی اسکے ماتھے پر چوٹ کی وجہ سے پٹی بندھی ہوئی تھی۔۔وہ اپنے روم میں سوئے ہووے تھی۔۔"تائی امی کے سر میں بہت درد تھا۔۔۔وہ بہت دیر سے لاؤنج میں بیٹھی ہوئی مایو کو آوازیں دے رہی تھی۔۔۔ مائشا مائشا مائشا۔۔۔ ارے اوہ منہوس کہا مر گئی ہیں۔۔؟؟ نور جو آج کل مائشا کے روم میں ہی اُسکے ساتھ رہ رہی تھی۔۔وہ ٹیرس پر بیٹھی ہوئی اپنے کالیج کی اسائیمنٹ بنا رہی تھی۔۔۔جب وہ صائمہ چاچی کی آواز کو سن کر وہ جلدی سے اُن کی بات سن نے کے لیے روم سے باہر نکل کر لاؤنج میں آئی۔۔۔ جی چاچی جان۔۔۔!!صائمہ بیگم (تائی امی) جو سر کو پکڑے ہوئے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی ۔۔۔نور کی آواز کو سن کر اسکو دیکھتے ہووے بولی۔۔۔ تم ہو مائشا۔۔۔؟؟ صائمہ بیگم نے بهوہیں اُچكاتے ہوئے نور سے پوچھا۔۔۔۔نور اس طرح صائمہ بیگم کے پوچھ نے پر ایک پل کو گھبرا گئی تھی۔۔۔لیکن پھر اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ چاچی جان ( صائمہ بیگم)"و وہ مایو تو ابھی دوائی لے کر لیٹی ہیں۔۔۔اتنا سننا تھا کہ صائمہ بیگم غصے سے چلّاتی ہوئی بولی ۔۔ کیا ۔۔۔؟؟؟ یہاں میرا سر درد سے فٹا جا رہا ہے۔۔۔اور اس مہارانی کو سونے کی پڑی ہیں۔۔۔آج میں اُسکی ساری نیندیں ہی اڑا دنگی ۔۔۔ پھر زندگی میں کبھی بھی میری اجازت کے بنا سونا تو دور کی بات آنکھیں بھی بند نہیں کریگی۔۔۔صائمہ بیگم غصے سے بڑ بڑاتے ہووے مایو کے روم کی طرف قدم بڑھا دیے تھیں۔۔۔
**********************
سلمان شاہ دو سالوں سے ایک فیملی کی طرح جہانگیر کی فیملی کے ساتھ راجپوت ویلا میں رہنے لگا تھا۔۔۔جہانگیر نے اپنے بابا(شاہنواز راجپوت) کو سلمان سے متعلق کچھ "مین مین باتیں بتا کر سلمان کو سپورٹ کرنے کے لیے راضی کر لیا تھا۔۔۔ شروع شروع میں جہانگیر کے بابا( شاہنواز راجپوت) نے بہت منا بھی کیا تھا۔۔لیکن بیٹے کی محبّت کے آگے انکی ضد کافی دن نہیں ٹک پائی ۔۔اور ہار مان تے ہووے جہانگیر کے بابا نے سلمان کی ہیلپ کرنے کے لئے ہاں کر دی تھی۔۔" شاہنواز راجپوت اور انکی زوجہ محترمہ نہوال شاہنواز راجپوت ،،کے دو بچے تھیں۔۔۔ ایک تو سترہ سالہ بڑا بیٹا جہانگیر راجپوت اور دوسری پندرہ سالہ چھوٹی بیٹی عائشہ راجپوت ۔۔ وہ دونوں اپنے بچوں سے بے انتہا محبّت کرتے تھیں۔۔۔انکی یہ چھوٹی سی فیملی ہی اُن کی قل کائنات تھی۔۔۔شاہنواز راجپوت ایک بڑے معروف بز نس مین میں سے ایک تھیں۔۔۔انکو اللہ نے شہرت بھی خوب دی تھیں اور اپنی دین اسلام سے بھی انکو خوب نوازا تھا۔۔۔شاہنواز راجپوت پنچگنہ نماز کے پائےبند روزے بھی رکھتے تھے۔۔اور اپنے بچّوں کو بھی نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کی تاکید کرتے تھے۔۔ لیکن اب انکی فیملی میں ایک شخص کا اور اضافہ ہو گیا تھا۔۔۔اور وہ تھا سلمان شاہ۔۔۔جو دو سالوں سے اُن سب کے ساتھ ایک فیملی کی طرح رہ رہا تھا۔۔۔ سلمان نے کالیج سے اچھے نمبروں سے اسکالرشپ لی تھی۔۔ اور لیتا بھی کیوں نہ آخر کو اُسے اپنا خواب پورا کرنا تھا۔۔ اس لیے اس نے اسکالرشپ لینے کے لیے راتوں کو جاگ جاگ کر جی توڑ محنت کی تھی۔۔اور آج وہ دن آ ہی گیا تھا جب آج دو سال بعد وہ آگے کی پڑھائی کمپلیٹ کرنے کے لئے لندن جا رہا تھا۔۔۔ وہ اور اُسکی فیملی یعنی (راجپوت فیملی) سب ایئر پورٹ پر اسکو چھوڑنے کے لئے آئے ہوئے تھیں۔۔۔ ہر ایک کی آنکھیں نم تھی نہوال بیگم تو بار بار اُسکا چہرا چومتے ہوئے ایک ہی بات دہرائے جا رہی تھی۔۔۔ بیٹا کھانا ٹائم پر کھانا۔۔جا کر کال کر نا ۔۔۔اپنا ڈھیر سارا خیال رکھنا۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔اور سلمان تو انکی خود سے محبّت کو دیکھ کر ہی روئیں جا رہا تھا۔۔۔ آج اسکو اپنی ماما کی بہت شدّت سے یاد آ رہی تھی۔۔۔وہ چاہنے کے باوجود بھی اپنے آنسوؤں کو بہنے سے روک نہیں پایا تھا۔۔ جہانگیر نے جب سبکو کُچّھ زیادہ ہی اموشنل ہوتے دیکھا تو ۔۔۔ تو وہ اُن سب کو ہنسانے کے لیے بولا۔۔۔ چل بیٹا توں ابھی اپنی سسرال نہیں جا رہا ہے۔۔۔اپنے ان آنسوؤں کو بچا کے رکھ۔۔ ابھی تو کافی وقت ہے سسرال جانے میں۔۔ میں ابھی سے ہی تھوڑی نہ اپنی سوتن کو لے کر آؤنگا۔۔۔ نہیں بیٹا اتنا بڑا ظُلم اتنی جلدی سہنے کی ہمّت نہیں ہیں مجھ میں۔۔۔ وہ ایسے بول رہا تھا جیسے یہاں پر کوئی انڈین ڈرامے کی کارکردگی جاری ہو۔۔۔جہانگیر کو اس نئے انداز میں دیکھ کر سب ہی ہنسنے لگے تھیں۔۔۔سلمان نے ہنستے ہوئے جہانگیر کی پیٹھ پر ایک مکّہ جڑ دیا۔۔۔"آہ ہ ہ ہ .....کمینے اِنسان جاتے جاتے بھی بخش نہیں رہا ہیں۔۔جہانگیر اپنی پیٹھ کو سہلاتے ہوئے سلمان کو گھور کر بولا تھا۔۔۔۔سلمان اُسکے یوں گھورنے کو خاطر میں نہ لاکر" شاہنواز انکل کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔اور پھر وہ باری باری سے سب سے ہی مل نے لگا تھا ۔۔۔جب اُسکی نظر دور کھڑی عائشہ پر پڑی۔۔۔وہ ایک طرف کھڑی ہوئے ٹک ٹکی باندھے سلمان کو ہی دیکھے جا رہی تھی۔۔۔جب سلمان کی نظر عائشہ پر گئی" تو اُسنے ہڑ بڑا کر اپنی نظروں کا زاویہ بدل لیا تھا۔۔۔سلمان نے جیسے ہی اُسکی طرف قدم بڑھائے تو اُسکی دل کی دھڑکن نے ایک سو بیس کی سپیڈ پر دھڑکنا شروع کر دیا تھا۔۔۔ وہ نہیں جانتی تھی اُسکا دل کیوں اس طرح دھڑک رہا ہیں اور نہ ہی وہ یہ جانتی تھی کی سلمان کا لندن جانا اُسکو کیوں پریشان کر رہا ہے ۔۔اگر وہ کُچّھ جانتی تھی ۔۔تو بس اتنا جانتی تھی ۔۔کہ سلمان اُسکی آنکھوں سے دور کبھی نہ جائے۔۔۔بس اُسکی آنکھوں کے سامنے ہمیشہ رہے۔۔سلمان نے عائشہ کے پاس جاکر اسکو اپنے مخصوص انداز میں آواز دی۔۔ آشی۔۔۔ اتنا بول نہ تھا کہ عائشہ کے دل ڈوب کر اُبھرا اور پھر اپنی لمبی گھنی پلکوں کو اٹھاکر سلمان کی طرف دیکھا۔۔اس طرح عائشہ کا دیکھنا سلمان شاہ کو بہت کچھ سمجھا گیا تھا۔۔۔ وہ اب چھوٹا نہیں رہا تھا ک کُچّھ سمجھ نہ پاتا وہ اب سترہ سال کا ایک حساس لڑکا تھا۔۔ جسکو زندگی کے ان دو سالوں نے بہت کچھ سیکھا بھی دیا اور دکھا بھی دیا تھا۔۔ لیکن وہ پھر بھی انجان بنتے ہووے اُس سے بولا۔۔۔آشی اپنا خیال رکھنا۔۔اور ماما کا بھی۔۔" وہ اب جہانگیر کی ماما کو ہی ماما بولنے لگا تھا،،۔۔ کیونکہ اسکو نہوال آنٹی میں اپنی ماما کا ہی اقص دِکھتا تھا۔۔ عائشہ نے آنسوؤں سے لبالب آنکھوں سے سلمان کو دیکھا۔۔۔ اور پھر گردن ہاں میں ہلاکر وہاں سے چلی گئی ۔۔کیونکہ اب اس میں سلمان کو جاتے ہووے دیکھنے کی اور طاقت نہیں تھی۔۔۔عائشہ کا یوں ایک دم سے جانا سلمان شاہ کے لیے بہت کُچّھ سوچنے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔اُسکی نظر نے دور تک عائشہ کا پیچھا کیا تھا۔۔۔ اور یہ منظر کسی اور نے بھی بہت غور سے دیکھا تھا۔۔۔اب فلائٹ کے لیے اناؤنسمینٹ ہونے لگی تھی۔۔۔سلمان واپس نہوال بیگم کے پاس آیا ۔۔اور انکے ہاتھوں کواپنے لبوں سے چومتے ہووے بولا۔۔ماما میرے لیے دعائیں کیجئے گا۔۔آپ کے اس بھٹکتے ہووے بیٹے کو اُسکی منزل مل جائے۔۔۔ اور جو بھی مجھ سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں انکی امیدوں کو میں اللّٰہ کے کرم سے پورا کر دوں۔۔۔اُسنے یہ آخری بات دور کھڑی عائشہ کو دیکھ کر کہیں تھی۔۔۔نہوال بیگم نے سلمان کے ماتھے کا بوسالیا ۔۔"اور پھر اُس سے بولی ۔۔۔سلمان بیٹا تمہاری ماں کی دعا ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں۔۔۔ اللہ تمہاری اس آزمائش کو آسانی کے ساتھ ختم کر دے۔۔۔اور جو تم چاہتے ہو اسکو پورا کر دے۔۔نہوال بیگم نے اسکو دل سے دعائیں دی تھی۔۔۔پھر سے اُسکے فلائٹ کا انّاؤننسمینٹ ہونے لگا تو جہانگیر بولا۔۔۔ارے یار "یہ لوگ بھی اپنی بک بک کرتی چونچ کو کبھی بند ہی نہیں کرتے۔۔۔ اور پھر وہ سلمان سے گلے ملتے ہوئے بولا۔۔سلمان توں ٹینشن مت لینا اور ٹائم پر کھانا ،ٹائم پر سونا اور سب کچھ ٹائم پر ہی کرنا۔۔۔اور تھوڑا وقت ہمارے لیے بھی نکال کر رکھنا ۔۔۔۔سمجھے۔ وہ ایسے ہدایت دے رہا تھا۔۔ جیسے" بیویاں اپنے شوہر کو دیا کرتی ہیں۔۔۔اوکے۔۔!سمجھ گیا میری پیارا سا بےبی۔۔ اور کچھ۔۔؟سلمان نے اُسکے گالوں کو خیچتے ہوئے اسکو چڑانے کی ایک ناکام سی کوشش کی تھی۔۔۔ھاھاھاھا..🤣 لیکن یہاں پر بھی ہمارا جہانگیر صاحب تھا۔۔" جو صدا کا ڈھیٹ تھا۔۔۔مضال ہے جو اس پر کسی بات کا اثر ہوتا ہو۔۔۔وہ بھی بیویوں کے طرح سرماتے ہووے بولا۔۔نہیں جی۔۔! اور کُچّھ نہیں۔۔۔۔۔! جہانگیر کو اس طرح دیکھکر سب کی ہی ہنسی چھوٹ گئی تھی۔۔۔پاس سے گزر کر جانے والی ایک لڑکی نے بھی یہ منظر بہت غور سے دیکھا تھا۔۔۔اور اُسکا بھی كہکا ہے اختیار بلند تھا۔۔۔۔اچّھا ماما بہت وقت ہو گیا ہے اب مجھے چلنا چاہیے۔۔۔۔ ٹھیک ہے بیٹا ""اللّٰہ تمہیں ہمیشہ اپنی آمان میں رکھے،،۔۔۔سلمان نے سب پر ایک الوداعی نظر ڈالی اور پھر بنا پیچھے دیکھے اپنی منزل کو اُسکا مقام دینے دور پردیش چلا گیا تھا۔۔۔اگر وہ ایک بار بھی پیچھے مڑ کر دیکھ لیتا تو اسکو لندن جانا مشکل ہو جاتا۔۔۔۔ کیونکہ جتنی محبّت" جتنی سپورٹ اس گھر اور اس گھر میں رہنے والے مکینوں سے اُسے ملی تھی۔۔۔ شائد ہی اس دنیا میں کوئی اسکو دے سکتا تھا۔۔۔اس گھر کے مکینوں کا اس پر اتنا احسان تھا کہ اگر وہ ساری زندگی بھی اتارنا چاہتا تو " تو اسکی سوچ کے مطابق وہ نہیں اُتار سکتا تھا۔۔لیکن صرف ایسا سلمان سوچتا تھا۔۔۔ورنہ راجپوت فیملی ایسا بلکل بھی نہیں سوچتی تھی۔۔۔وہ تو سلمان کو اپنا ہی بیٹا کہتی تھی۔۔۔کہنے سے زیادہ وہ اپنے دل سے اُسکے اپنا مانتی بھی تھی۔۔۔
******************
حال..........
منہال کو آج ایک مہینہ ہو گیا تھا لندن آئے ہوئے۔۔جس رات سے اُسکے بابا کی کال آئی تھی" اور اُسکے بابا نے اس سے بات نہیں کی تھی ،، اس رات سے اب تک وہ نہ تو صحیح سے سو پایا تھا۔ "اور نہ ہیں صحیح سے کچھ کھاتہ پیتا تھا۔۔اُسکے ساتھ ان پانچ سالوں سے ایسا ہی ہو رہا تھا۔۔جب بھی وہ اپنے بابا سے بات کرنا چاہتا " اور اُسکے بابا اس سے بات نہیں کرتے "تو وہ مہینے مہینے یوں ہی ڈسٹرب رہتا ۔۔۔اور وہ اس اذیت سے خود کو چھٹکارا دلانے کے لیے اپنے آپ کو کام میں مصروف کر لیا کرتا ۔۔۔آج بھی وہ رف سے حلیے میں ڈھیلا ڈھالا سا ٹراؤزر اور اس پر شرٹ پہنے بڑھی ہوئی شیو میں ہر کسی کا دل آسانی سے اپنی مٹھی میں قید کر سکتا تھا۔۔وہ ٹریس پر کھڑا دور خلاؤں کو بہت غور سے گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔۔وہ اپنے آپ سے جنگ لڑ رہا تھا" جو وہ پانچ سالوں سے لڑتا آ رہا تھا۔۔کیا مجھ سے میرے بابا اب کبھی بات کر سکتے ہیں۔۔۔؟؟ کیا میں اتنا برا ہوں کہ سب مجھ سے نفرت کرنے لگے ہیں۔۔۔؟؟میں اس دنیا میں ایک واحد شخص ہوں جس نے اپنے عزیزوں کا اعتبار توڑا ہے۔۔۔کیا کوئی مجھ سے محبّت بھی کر سکے گا۔۔؟؟میں اس دنیا میں کیا کر رہا ہوں۔۔؟؟ میں کیوں ہوں۔۔؟؟؟اور کس کے لیے ہوں۔۔؟؟جو میرے لئے سب سے زیادہ عزیز ہے " وہ تو اب مجھ سے نفرت کرنے لگے ہیں۔۔اب میرا اس دنیا میں کوئی جواز ہی نہیں بنتا جینے کا۔۔وہ خود سے ہی سوال کر رہا تھا۔۔اور خود ہی جواب بھی دے رہا تھا۔۔۔ کیونکہ اُسکے سوالوں کا جواب دینے والا کوئی نہیں تھا ۔۔ابھی تک اُسے صرف اپنے آپ سے نفرت ہوتی تھی لیکن اب اُسکو اپنا وجود اس دنیا میں بہت بے معنیٰ لگ رہا تھا۔۔وہ ابھی خود سے ہی لڑ رہا تھا ۔۔ جب سامنے رکھی ٹیبل پر اُسکا موبائل چنگھاڑا تھا۔۔
ٹنانانانان ننننن......... اُسنے پیچھے مڑ کر موبائل پر ایک نظر ڈالی۔۔۔جہاں پر صرفان کالنگ لکھا جگمگا رہا تھا۔۔اس نے موبائل پر ایک نظر مار کر پھر سے اپنے پہلے کام میں شغل فرمانے لگا۔۔۔کیونکہ آج اُسکا بلکل بھی کسی سے بات کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔۔۔۔ٹنانانانننننننننننن...پھر سے اُسکا موبائل چنگھاڑا تھا۔۔۔اُسنے کچھ سوچتے ہوئے ٹیبل سے موبائل اٹھا کر کان سے لگایا" اور اپنی بھاری مخصوص آواز میں بولا۔۔۔ ہیلو۔۔!!ہاں بول ۔۔السلام وعلیکم۔۔۔!! نہ سلام نہ دعا بس لٹھامار ہیں نہ بروں۔۔۔"صرفان نے اس پر چھوٹ تے ہی طنز کی برسات کی تھی۔۔۔۔وعلیکم السلام ہمارے بزرگ جی صاحب۔۔" اور کیسے ہیں آپ "آپکی عبادات کیسی جا رہی ہے۔۔ایک ٹائم کی بھی نماز تو نہیں چھوٹ رہی آپکی"" بزرگ جی" منہال نے زِچ ہوتے ہوئے صرفان کی اچھی خاصی ٹانگ خیچ ڈالی تھی۔۔۔جس سے صرفان اچھا خاصہ شرمندہ ہوں گیا تھا۔۔کیونکہ وہ نماز میں بہت زیادہ کوتاہی کرتا تھا۔۔۔کبھی کبھی پڑھ لی مہینے میں ایک دو بار"اور بس ہو گئی سارے سال کی عبادات " وہ اپنی شرمندگی مٹاتے ہوئے بولا۔۔کیا یار اب تو اپنے بھائی کو تونٹ بھی کریگا۔۔۔نہیں__! میری کیا مزال جو میں تجھے تونٹ کروں۔۔بھئی بہت ڈر لگتا ہے تجھ سے کیا پتہ کبھی مجھے کچھ ہو جائے اور تُو میرا علاج کرنے سے ہی منا کر دے۔۔منہال نے در نے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اس سے کہا تھا۔۔۔**"اللهمّہ فزنه ،،*اللّٰہ نہ کرے تُجھے کچھ ہو__؟""پاگل ہے کیا__؟ کیسی باتیں کر رہا ہے__؟اللّٰہ کریں میری عمر بھی تُجھ کو لگ جائے صرفان نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اسکو ڈانٹا تھا۔۔یار ایک نہ ایک دن تو اس دنیا کو چھوڑنا ہی ہیں۔۔۔تو پھر اس میں اتنے گھبرانے کی کیا بات__؟کچھ بھی ہیں لیکن تو ایسا کچھ بھی نہیں بولے گا" سمجھا صرفان اسکو تنبیہ کرتے ہوئے بولا تھا۔۔۔""اور اگر میں اس دنیا سے جانے کا ہی سوچوں لوں تو....." منہال آج اپنے سوالوں کے جواب چاہتا تھا ۔۔اس لیے وہ اُسکے تنبیہ کرنے کو نظرانداز کرتے ہوئےبات کو طویل دینے لگا تھا۔۔۔
تو میں تجھے جانے ہی نہیں دو گا صرفان نے اس سے کہا۔۔اچّھاا ا ا ....." اور وہ کیوں___؟ اس لیے کہ تو میری زندگی ہے۔۔۔چل بے کوئی کسی کی زندگی نہیں ہوتا۔۔۔یہ سب جھوٹ ہوتا ہیں۔۔دنیا میں محبّت نام کا کوئی احساس یا جذبہ نہیں ہوتا۔۔۔منہال نے جیسے اسکی اس بات کا مذاق بنایا تھا۔۔۔اور تُجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ دنیا میں محبّت نام کا کوئی جذبہ یا احساس نہیں ہوتا__؟ صرفان نے منہال سے پوچھا۔۔۔وہ اس لیے کیونکہ اگر کسی کو کسی سے بھی محبّت ہوتی تو وہ یوں میری طرح بیچ راستے میں ذلیل کرکے نہیں جایا کرتے جیسے مجھے جیا ہادی نے ذلیل کرکے چھوڑا ہے۔۔۔اور بچی ہوئی کسر بابا نے پوری کردی مجھ سے منہ موڑ کر۔۔۔وہ بہت ضبط کرکے بولا تھا۔۔لیکن پھر بھی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہنے لگی تھی۔۔۔منہال میرے بھائی انکل نے یا ہم نے تجھے اکیلا نہیں چھوڑا اور اپنی زندگی کو کوئی اکیلا کیسے چھوڑ سکتا ہے۔۔۔تم ہی بتاؤ کیا تمہیں آج بھی اس سے محبّت ہیں__؟صرفان نے ہر بار کی طرح اسکو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔۔نہیں__! اب صرف مجھے اس سے نفرت ہیں نفرت اور کچھ نہیں منہال شعلے برساتی آنکھوں سے آسمان کو گھورتے ہوئے بولا تھا۔۔تمہیں پتہ ہے منہال ہیں لوگوں سے محبّت کی جاتی ہے اُنسے نفرت نہیں ہوتی"" چائے وہ کتنی بھی بڑی غلطی کر دے بس انکی آخری غلطی سمجھ کر انکو معاف کر دیا جاتا ہیں۔۔اور جیا ہادی تو کبھی تمہاری محبّت ہی نہیں تھی۔۔وہ صرف تمہارا ایک وقتِ جذبہ تھا اور کچھ بھی نہیں "صرفان نے منہال سے کہا تھا۔۔ایک بار ,صرف ایک بار تم اپنے دل سے پوچھو تمہیں تمہارے ہر سوال کا جواب خود بخود مل جائے گا۔۔وہ اسکو ہر ممکن سمجھانے کی کر رہا تھا۔۔وہ بھی تھک چکا تھا اپنے دوست پلس بھائی کو اس حالت میں دیکھ کر۔۔تو پھر بابا مجھ سے باتیں کیوں نہیں کرتے میں جب بھی اُن پر کال کرتا ہوں تو وہ کیوں کاٹ دیتے ہیں___؟ کیا اُنکے دل میں میرے لیے اتنی نفرت ہیں ک انکی محبّت پر نفرت ہاوی ہو گئی۔۔ میں اپنے ہی بابا کے لیے اتنا ناقابلِ برداشت ہو گیا ہوں ک انکو میری وجہ سے گھر چھوڑ کر امریکہ سیٹل ہونا پڑا ۔۔وہ بابا جو مجھے کبھی اپنی زندگی بولا کرتے تھیں "آج وہیں مجھ سے اتنی نفرت کرنے لگے ہیں۔۔وہ بکھرا بکھرا سا بول رہا تھا۔۔۔مُجھسے نہیں ہوتا برداشت شعری نہیں ہوتا برداشت ۔۔ تم ہی بتاؤ میں کیا کروں میں مرنے کی بات نہیں کرو گا تو اور کیا کرو گا۔۔۔شعری اب تک تو مجھے اپنے وجود سے نفرت ہوتی تھی۔۔لیکن اب "اب تو مجھے اپنا وجود ہی بے معنیٰ سا لگنے لگا ہے۔۔۔میں اب جینا نہیں چاہتا۔۔تم دعا کرو کہ آج شام میں جب میں انڈیا آؤ تو راستے میں ہی مر جاؤں۔۔تاکہ مجھے اس دنیا سے چھٹکارا مل جائے "ورنہ میں ایسے ہی روز جیوں گا اور روز مروں گا ۔۔۔مُجھسے روز روز کی یہ تکلیف برداشت نہیں ہوتی ۔۔روز کی تکلیف سے تو اچھا ہے میں ساری تکلیفوں کو ایک ساتھ ہی سہ کر اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں۔۔۔وہ بول نے کے ساتھ ساتھ روں بھی رہا تھا۔۔اس بیچ صرفان کچھ بھی نہیں بولا تھا۔۔۔وہ بھی بے بعد تھا بہت بے بس وہ چہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔منہال اب تو تم نے یہ لفظ بول دیے لیکن اگر تم نے آگے سے یہ لفظ بولے نہ تو تم سے پہلے میں اپنے آپ کو کچھ کر لوں گا" اور یہ میں کوئی ڈائلاگ نہیں بول رہا ۔۔تم اچھے سے جانتے ہو کہ میں تمہارے معاملے میں کیسا ہوں۔۔۔صرفان منہال سے بولا تھا۔۔اب چھوڑو ان باتوں کو اور جلدی سے گھر آ جاؤ یار بلکل بھی دل نہیں لگ رہا ہے۔۔۔صرفان اُداس ہوتے ہوئے بولا۔۔ منہال نے اپنے آنسو صاف کیے پھر بولا تم اب کہاں پر ہو__؟؟
سلمان ویلا میں "کیوں__؟ اچھا اور کب سے ہو__؟ میں تو تب سے ہی ہوں جب سے تم لندن آ گئے تھیں۔۔ ماما کی طبیعت کیسی ہیں۔۔۔؟ بہت جلدی یاد آ گئی ماما کی صرفان نے منہال کو شرم دلانی چاہی۔۔یار بس ٹائم ہی نہیں ملا۔۔۔منہال اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک لمبی سانس خیچ کر صرفان سے بولا تھا۔۔۔ اچھا__! کب کی فلائٹ ہے تمہاری۔۔۔؟ صرفان نے منہال سے پوچھا۔۔آج رات کی چھ بجے تک ایئرپورٹ پر موجود ہو گا ۔۔۔اور رات بارہ بجے تک انڈیا ایئرپورٹ پر اُسنے صرفان کو بتایا ۔۔۔ اچھا__! چل ٹھیک ہے پھر ملتے ہیںAP پر صرفان بولا۔۔'AP,منہال اُسکو زیر لب دوہراتے ہوئے بولا۔۔۔مطلب یار ایئرپورٹ صرفان نے اسکو بتایا۔۔۔اچھا اچھا....! میں بھی تو سوچوں کی اب یہ نیا شہر کہا اباد کیا گیا ہیں۔۔منہال صرفان سے بولا تھا۔۔۔چل ٹھیک ہے میں بعد میں بات کرتا ہوں منہال نے یہ بول کر کال کاٹ دی تھی۔۔اور پھر اپنے روم میں چلاگیا تھا۔۔
**********************
یہ منظر ہے لندن ایئرپورٹ کا۔۔۔چاروں طرف شورشرابا کوئی اپنے عزیزوں کو لینے کے لیے آئے ہوئے تھیں" تو کوئی اپنے عزیزوں کے پاس جانے کے لیے اناؤنسمینٹ ہونے کا ایک طرف بیٹھ کر انتظار کر رہے تھے۔۔ایسے میں وہ سیاہ رنگ کا کوٹ اور سیاہ رنگ کا ہی ٹراؤزر پہنے ہوئے بالوں کو جیلی سے سیٹ کیے اپنی مغرور چال چلتا ہوا ایک ہاتھ میں ٹرالی تھامیں اور ایک ہاتھ سے فون کان پر لگائے کچھ زیادہ ہی جلدی میں نظر آ رہا تھا۔۔ ہاں یار بس پہنچ تو گیا ہوں ۔۔لیٹ ہو گیا تھا۔۔ اچانک سے کچھ ضروری کام کے سلسلے میں کسی کے ساتھ میٹنگ ہو گئی تھی۔۔ یار بس وہیں پر وقت لگ گیا "وہ ابھی کچھ بول ہی رہا تھا جب اسکی کسی سے بہت زور کی ٹککر ہوئی۔۔ٹککر لگنے کی وجہ سے اُسکے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر نیچے فرش پر گر گیا تھا۔۔وہ غصّے سے اسکی طرف دیکھنے ہی لگا تھا جب سامنے والے کو دیکھ کر وہ بے ختیار بولا۔۔عالیان تم...!! تم یہاں کیسے__؟ عالیان کا بھی کچھ ایسا ہی رد عمل تھا۔۔اسلام وعلیکم ۔۔۔۔! عالیان نے بے یقینی سے منہال کو دیکھتے ہوۓ سلام کی تھی ۔۔وعلیکم السلام___! منہال نے شرمندہ ہوتے ہوئے اُسکی سلام کا جواب دیا" اور پھر سے اُسنے اپنا سوال دہرایا تھا۔۔یار اسٹڈی یہاں میں اسٹڈی کر رہا ہوں ۔۔۔۔ کچھ دن کی لیو لے کر انڈیا جا رہا ہوں "عالیان نے منہال کے سوال کا جواب دیا۔۔اوہ ہ ہ ہ.... اچھا۔۔! منہال اُسکے بات کو سمجھتے ہوئے فقط اتنا بولا تھا ۔۔۔۔اور تم یہاں ___؟ وہ ابھی بول ہی رہا تھا "جب منہال اُسکے بات کو کاٹ تے ہوئے بولا یار میں بھی یہاں پر کچھ ضروری کام کے سلسلے میں آیا تھا"اب میں بھی انڈیا ہی جا رہا ہوں۔۔فلائٹ کب کی ہے۔۔۔ ؟"آئی مین ' کتنے بجے کی _؟ عالیان نے منہال سے پوچھا ۔۔۔آٹھ بجے کی __!! منہال نے بھی اسکو بتایا ۔۔۔۔میری بھی یہیں ہیں۔۔۔چلوں دونوں کی ساتھ ہی تو " جب تک اناؤنس نہیں ہوتا وہاں پر بیٹھ کر کچھ باتیں ہی کر لیتے ہیں ۔۔اور ویسے بھی ہم دونوں کی چار سال بعد ملاقات ہوئی ہیں عالیان نے منہال سے کہا تھا۔۔۔ ہم۔۔۔!!"منہال نے بھی اپنے ماضی سے کچھ پل کے لئے چھٹکارا پانے کے لیے عالیان کو ہاں کر دی تھی۔۔۔اب وہ دونوں ایک بینچ پر بیٹھے ہوئے بات کر رہے تھیں۔۔۔۔۔۔۔
********************
صائمہ بیگم (تائی امی) نے دھڑام سے دروازہ کھولا " اور تن فن کرتی مائشا کے سر جا کھڑی ہوئی۔۔صائمہ بیگم نے اسکے اُپر سے نے رہموں کی طرح کمفرت اتر کر دور پھینکا تھا۔۔ایسا کرنے مائشا ایک دم ہڑ بڑا کر اٹھی تھی۔۔تائی امّی کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ خوف زدہ ہوتی ہوئی بولی۔۔ت تائی ا امّی ا آپ پ.....وہ کچھ زیادہ ہی خوف زدہ نظر آ رہی تھی۔۔جب سے اسکو تائی امّی نے سیڑھیوں سے ڈھکا دیا تھا "جب سے اسکو صائمہ بیگم سے اور زیادہ خوف آنے لگا تھا۔۔اُسنے جلدی سے اپنے دوپٹہ اٹھا کر اسکو اوڑھنے ہی والی تھی جب صائمہ بیگم نے اسکو بالوں سے جکڑتے ہوئے بیڈ سے نیچے اتار کر دھکّا دیا تھا۔۔جسکی وجہ سے وہ سامنے دیوار سے ٹکرانے ہی والی تھی" جب اسکو نور نے وقت پر آکر تھام لیا تھا۔۔ نور کو غصّہ تو بہت آیا تھا صائمہ بیگم کی اس حرکت پر لیکن وہ اُنکا بڑی ہونے کا لحاظ کرتی ہی بولی"چاچی جان ن...." آپ ایسے مایو کو دھکّا کیسے دے سکتی ہیں۔۔آپ اچّھے سے جانتی ہے کہ مایو کی طبیعت آج کل ٹھیک نہیں "پھر بھی،.... مائشا کے سر میں دھکّا لگنے کی وجہ سے ٹیس کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔۔وہ اپنے سر کو تھام تی ہوئی بولی" ن نن نور رہنے دو م مم میں ٹھیک ہوں۔۔!!نہیں مائشا یہ بھی کوئی طریقہ ہیں کسی کو جگانے کا۔۔وہ مایو کو دیکھتی ہوئی بولی۔۔پھر صائمہ بیگم کی طرف متوجہ ہو کر بولی چاچی جان یہ آپ کا" کون سا طریقہ ہے کسی کو جگانے کا__؟اگر مایو کو چوٹ لگ جاتی تو__؟ اتنی مشکل سے اس کے زخم بھرنے شروع ہوئے ہیں " اور آپ پھر سے اسکو زخم دینے آ گئی۔۔وہ ابھی بول ہی رہی تھی جب صائمہ بیگم اسکے بات کاٹتی ہوئی بولی ۔۔اوے بی بی اپنے کام سے کام رکھ" تو مجھے مت سکھا کہ کسکو کیسے جگانا ہیں اور کس کو نہیں۔۔تو یہاں اپنی چھٹیاں بتانے آئی ہے تو اسکو بتا ۔۔بس اسکے علاوہ مجھے مت سکھا مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں__؟ سمجھی صائمہ بیگم یہ بول کر مائشا کی طرف لپکی اور پھر سے اسکے بالوں کو اپنی مُٹھی میں جکڑ کر اسکو گھسیٹتے ہوئے روم سے باہر لے جانے لگی تھی جب نور نے انکا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔چاچی جان میں آپ کی عزت کر رہی ہوں اسکا یہ مطلب نہیں کہ میں کسی پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھ لونگی۔۔۔"مجھے غلطی مت کیجئے گا ایسا سمجھنے کا۔۔کیونکہ میں نور حسن احسان شاہ کی بیٹی ہوں __!نہ تو میں کسی پر ظلم کسی پر کرتی ہوں اور نہ ہی کسی کو کرنے دیتی ہوں__! نور نے یہ صائمہ بیگم سے کہا تھا۔۔
اچّھا ا ا ا ا ا....! چلو پھر میں بھی دیکھتی ہوں ک ٹائم کیسے بچاتی ہو اس منہوس کو مجھ سے صائمہ بیگم نے یہ سب مائشا کی طرف نفرت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے نور سے کہا تھا۔۔اور یہ بول کر صائمہ بیگم نے مائشا کا ہاتھ پکڑ کر
اسکو گھسیٹتے ہوئے کچن میں لےگئی تھی ۔۔مائشا روتی ہوئی اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔تائی امّی چ چھوڑے م مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔اللّٰہ کے واسطے پلیز تائی امّی"وہ مستقل روتی ہوئی صائمہ بیگم کو پکار رہی تھی۔۔ مایو کو چھڑانے کے لیے نور بھی مستقل کوشش کر رہی تھی" لیکن صائمہ بیگم اسکو خاطر میں نہ لا کر اپنا کام کر رہی تھی۔۔۔صائمہ بیگم نے کچن میں لاکر اسکو پٹکا پھر چولہے پر چاقو کو گرم کرنے لگی تھی۔۔۔ نور نے جب صائمہ بیگم کو چاقو گرم کرتے دیکھا تو اسکو سب سمجھ آنے لگا تھا تبھی تو وہ چھیخ تی ہوئی بولی "بس چاچی جان ... بس مجھے پتہ ہے آپ کیا سوچ رہی ہے۔۔۔ کو بھی بہودے خیالات آپ کے ذہن میں چل رہے ہیں نہ انکو نکال دے ورنہ ....
م میں چاچو کو فون کر کے بتا دونگی۔۔۔وہ صائمہ بیگم دھمکی دیتے ہوئے بولی۔۔۔جاؤ بی بی جاؤ جس کو بھی بلانا ہے بلا کر لاؤ میں بھی دیکھتی ہوں وہ یہ بول کر مائشا کی طرف تپتا ہوا چاقو لے کر آئی تھی ۔۔۔نہیں تائی امّی ن نہیں مائشا میں ڈرتے ہوئے اپنے قدم پیچھے کی طرف بڑھانے لگی تھی۔۔۔نور سے جب صائمہ بیگم کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تو وہ چاچو کو فون کرنے کے لیے لاؤنج میں آ گئی کیونکہ اُسکا موبائل وہیں ٹریس پر چھوٹ گیا تھا۔۔ن نہیں وہ بولتی ہوئی دیوار سے جا لگی دیوار سے لگنے کے بعد اُسنے اپنی آنکھیں زور سے بند کر لی تھی ۔۔۔۔صائمہ بیگم نے زبردستی اُسکا ہاتھ پکڑا اور اسکے ہاتھ کی کلائی پر تپتا ہوا چاقو رکھ دیا۔۔۔آں ں ں ں ں ں ....... اللّٰہ جی ی ی ی ی........اُسکی چیخ سے ساری حویلی گونج اٹھی تھی ۔۔۔نور جو ملک (چاچو)پر کال کرنے کے لیے لاؤنج میں آئی تھی ۔۔۔مائشا کی چیخ کو سنکر واپس کچن کی طرف دوڑ لگا دی۔ کچن میں جانے کے بعد نور نے جو منظر دیکھا تھا وہ اسکے حواس سلپ کرنے کے لیے کافی تھا۔۔حواس باختہ سی مائشا کی طرف لپکی جو کی وہ اب بیہوش ہو چکی تھی۔۔صائمہ بیگم نے بے رحم ہو کر وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔م مائشا مائشا........آنکھیں کھول میری جان وہ روتے ہوئے بار بار اسکے گالوں کو ٹھپ ٹھپا رہی تھی.مایو پلیز آنکھیں کھول نہ" اُسنے اَپنا سر مائشا کے سر سے ملایا اور آنکھیں بند کئے رونے لگی۔۔نور کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے آج حویلی میں کوئی بھی نہیں تھا "اُن تینوں کے علاوہ نوکربّھی اپنا کام نپٹا کر اپنے اپنے کوارٹر میں چلے گئے تھے۔۔دادو کسی رشتےدار کی عیادت پر گاؤں گئی ہوئی تھی۔شہزین اور ملک صاحب آفس گئے ہوئے تھیں۔۔شاہزیب کسی کام سے آؤٹ آف کنٹری تھا۔۔سب اپنے اپنے کام سے باہر گئے ہوئے تھیں۔۔ اللّٰہ جی میں کیا کروں..اُسنے بے بس ہوکر اللّٰہ کو یاد کیا"اور انسان کر بھی کیا سکتا ہے "جب انسان کے پاس کوئی راستہ نہ ہو تو وہ الله کو ہی یاد کرتا ہے۔۔کیونکہ وہ جانتا ہے جب ہر دروازہ بند ہو جاتا ہیں تو ایک دروازہ ہمیشہ کھلا ہوتا ہے۔اور وہ ہے دعا کا"دعا انسان کی قسمت کو بدل سکتی ہے۔۔کیونکہ دعا صرف عرش پر بیٹھنے والا دو جہاں کا مالک جو بڑا رحمٰن ہے "وہ ہی پوری کر سکتا ہے۔۔اور کوئی نہیں۔۔بے شک اللہ تعالیٰ ہم سب پر ہمیشہ اپنی نظریں قرم رکھتا ہے۔۔۔وہ روتی ہوئی اللّٰہ سے دعا کر رہی تھی۔۔وہ تھی تو ایک لڑکی ہی جو ایسی نازک حال سے کبھی گزری نہیں تھی۔۔اور پھر ایک دم ایسا ہونا۔۔وہ گھبرا گئی تھی۔جب اسکے دماغ میں دھماکہ ہوا"اُسنے جلدی سے اپنے آنسوؤں کو پوچھا اور مایو کو آرام سے فرش پر لیٹا کر جلدی سے اٹھی اور پانی سے بھرا جگ اٹھا کر لے آئی۔۔اُسنے مائشا کے چہرے پر پانی کی چھینٹے ماری۔۔پھر بھی مایو کو ہوس نہیں آیا تو وہ گھبرا گئی۔۔۔ وہ جلدی سے لاؤنج کی طرف بھاگی اور ٹیلیفون کے پاس جا کر ملک صاحب کا فون ملایا۔۔جو کچھ دیر بعد اٹھا لی گئی تھی۔۔وہ روتی ہوئی بولی چ چاچو ہونننننننن۔۔اس سے بولا بھی نہیں کا رہا تھا۔۔جب دوسری طرف سے ملک شاہ پریشان ہوتے ہوئے بولے "نور بیٹا کیا ہوا__؟ کیوں روں رہی ہو__؟ چاچو و وہ م مایو "وہ اتنا بول کر پھر رونے لگی۔۔کیا ہوا مائشا کو__؟ کچھ تو بتاؤ بیٹا___؟ صحیح معنوں میں ملک شاہ کی دنیا ہل گئی تھی ۔۔۔چاچو آ آپ بس جلدی سے گھر آئے"مایو کو پتہ نہیں کیا ہو گیا۔۔وہ اپنے آپ پر کنٹرول کرتی ہوئی جلدی جلدی بولی تھی ۔۔۔نور حسن شاہ اگر کسی سے محبّت کرتی تھی تو بہت اچھے سے نبھاتی بھی تھی ۔اور مایو سے اسکی محبّت ان پندرہ دونوں میں ایسی ہو گئی تھی کی وہ چاہ کر بھی اب اسکو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی۔۔کیونکہ نور کو مائشا ایک چھوٹی بہن کے روپ میں ملی تھی۔۔ہمیشہ نور کو چھوٹی بہن کی کمی محسوس ہوئی تھی جو کمی اسکی مائشا کے روپ میں پوری ہو گئی تھی۔۔۔ وہ فون کان سے لگائے روئے جا رہی تھی جب دوسری طرف سے ملک شاہ بولے " نور بیٹا میں ابھی دس منٹ میں آ رہا ہوں جب تک تم مائشا کا خیال رکھنا ۔اُنہونے اتنا بول کر فون کات دیا نور بھی فون کو رکھ کر مائشا کے پاس واپس کچن میں چلی گئی تھی۔۔۔ جہاں وہ بےہوش پڑی تھی۔۔۔
******************
منہال اور عالیان کی اتفاقِ سے سیٹ بھی ایک ساتھ ہی تھی منہال کی سیٹ کھڑکی کے پاس اور عالیان کی سیٹی جسٹ منہال کے برابر میں ہی تھی۔۔منہال کو عالیان کی کمپنی بہت اچھی لگ رہی تھی"وہ تھا ہی ایسا جو بھی اس سے ایک بار ملتا تو کبھی بور نہیں ہوتا تھا۔۔اور یہاں تو منہال سلمان شاہ تھا جو اپنے ماضی کو بھلانے کے لیے کوئی نہ کوئی مصروفیات ڈھونڈتا رہتا تھا۔۔منہال کو عالیان سے ملکر ایسا محسوس ہوتا تھا "جیسے وہ اُسکا کوئی زیادہ ہی نزدیکی ہو۔کبھی بھی اس سے مل کر اسکو عجیب سا فیل نہیں ہوتا۔۔جب بھی ملتا ایک الگ ہی احساس ہوتا اسکو۔۔اچھا عالیان تم نے کبھی اپنی فیملی کے بارے میں نہیں بتایا۔۔۔آئی مین "کون کون ہے تمہاری فیملی میں۔۔؟اور تم کون سی فیملی سے بیلونگ کرتے ہو __؟منہال نے اس سے پوچھا۔۔کبھی تم نے پوچھا بھی تو نہیں "اور مجھے کبھی بتانے کا موقع بھی نہیں ملا۔۔۔عالیان نے ہستے ہوئے منہال سے کہا۔۔ہاں یار تم صحیح بول رہے ہو۔۔منہال نے بہت افسوس سے عالیان کو دیکھتے ہوئے اُسکی بات کا جواب دیا تھا۔۔چلو کوئی بات نہیں میں تمہیں اب بتا دیتا ہوں۔۔عالیان منہال سے بولا "اور پھر اسکو اپنی فیملی کے بارے میں بتانے لگا۔۔میں شاہ فیملی سے بیلونگ ہوں۔۔میرے دو بھائی ماما بابا, دادا دادو , تایا ابّا تائی امّی انکی ایک لوتی بیٹی نور اور ایک چاچو کی بیٹی ہے۔۔۔اچھا__!لیکن تم دو شخص کو تو بھول ہی گئے منہال نے جیسے اسکو یاد دلایا ۔۔۔کسکو__؟ عالیان نے نہ سمجھی سے منہال کو دیکھا۔۔اپنے چاچو اور چاچی کو منہال کو لگا وہ بھول گیا ہے اس لیے اُسنے اسکو یاد دلایا تھا۔۔نہیں منہال میں انکو بھلا نہیں بلکہ میں نے انکا نام نہیں لیا تھا کیونکہ میں جب بھی اُنکا نام لیتا ہوں تو مجھے بہت دُکھ ہوتا ہے ۔۔عالیان نے نم آنکھوں سے منہال کو دیکھتے ہوئے بتایا۔۔وہ کیوں__؟ منہال نے اس سے پوچھا۔۔وہ اس لیے کیونکہ میرے س چاچو کی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہو گئی تھی۔۔اور چاچی جان کا آج تک کچھ اتہ پتہ نہیں دادو بتاتی ہے کی جب انکی چھوٹی بیٹی پیدا ہوئے تھے نہ انکی کنڈیشن بہت کریٹیکل تھی ۔۔۔اس لیے انکو ہسپتال میں ایڈمٹ کیا ہوا تھا۔۔۔لیکن ایک رات پتہ نہیں کیسے چاچی جان کہیں گم ہو گئی۔۔اُنکا آج تک کچھ بھی پتہ نہیں چلا۔۔۔عالیان نے بہت دکھی دل سے منہال کو بتایا۔۔اوہ ہ ہ ... "آئی ایم سوری ،،عالیان مجھے نہیں پتہ تھا اگر پتہ ہوتا میں تم سے نہ پوچھتا کبھی۔۔۔مجھے بہت افسوس ہوا۔۔۔لیکن مجھے ایک بات بلکل سمجھ نہیں آئی" تمہارے چاچو کے ایک اور بیٹی تھی کیا__؟ مطلب تمے یہ بولا نہ کی چھوٹی بیٹی ۔۔۔اس لیے پوچھ رہا ہوں۔۔۔ منہال نے اسکو دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا ۔۔۔ہاں انکی ایک پانچ سال کی بیٹی تھی۔۔۔مجھے زیادہ تو نہیں پتہ لیکن دادو بتاتی ہے جب انکی چھوٹی بیٹی پیدا ہوئی تو ہسپتال میں لڑائی جھگڑا ہوا تھا وہاں پر شائد فائرنگ بھی ہوئی تھی جسکی وجہ سے ہسپتال میں بھگدڑ مچ گئی تھی۔۔تو انکی بیٹی وہیں پر گم ہو گئی تھی ۔۔بعد میں اسکو بہت ڈھونڈا بھی لیکن وہ نہیں ملی۔۔۔۔۔ منہال کو یہ سن کر بہت دیکھ ہوا لیکن وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔۔۔"جو اللّٰہ کو منظور ہوتا ہے ہونا تو وہی ہوتا ہے،، وہ بس گردن ہی ہلاکر رہ گیا تھا۔۔۔پھر کچھ سوچتے ہوئے
If you don't mind
کیا میں تم سے کچھ پوچھ سکتا ہوں___؟ منہال نے عالیان سے پوچھا ۔۔۔sure__!اس میں مائنڈ کرنے کی کون سی بات ہیں__؟ عالیان نے اسکو پوچھنے کی اجازت دیتے ہوئے اس سے کہا تھا۔۔نہیں یار تمہارے گھر کی لڑکی کا یوں نام پوچھنا ایک غیر آدمی کو اجازت نہیں دیتا۔۔منہال اس سے بولا۔,۔لیکن تم غیر نہیں ہو منہال "تم میرے دوست ہو۔۔۔کیا میں تمہیں جانتا نہیں ہوں__؟ ہاں پوچھو کیا پوچھنا تھا ۔۔۔عالیان اس سے منسہی ناراضگی جتاتے ہوئے بولا۔۔۔نہیں یار میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔منہال اس سے تھوڑا شرمندہ سا ہو کر بولا۔۔۔یار تمہارے چاچو کی دونوں بیٹیوں کا کیا نام ہے___؟ مائشا اور مدیحہ۔۔۔عالیان نے اسکو بتایا ۔۔مائشا کا نام سنتے ہی منہال کی آنکھوں کے سامنے نور سے چمکتا پاکیزہ سا چہرہ لہرانے لگا تھا۔۔۔ جسکی آنکھوں میں صرف ویرانی تھی اور کچھ نہیں__؟کہیں تم احسان شاہ کے پوتے اور ملک شاہ کے بیٹے تو نہیں ہو__؟ منہال نے اندازہ لگاتے ہوئے عالیان سے پوچھا۔۔۔ہاں__! لیکن تم کیسے جانتے ہو__؟عالیان نےاُلجھن اور حیرت سے ملے جلے تاثرات سے منہال کو دیکھتے ہوئے اسکے سوال کا جواب دے کر "پھر اس سے بدلے میں سوال کر ڈالا۔۔۔یار منہال نے ہسپتال سے لے کر ریسٹورینٹ تک کی ہونے والی ملاقاتیں بتا دی تھی ۔۔صرف مائشا کو بلڈ دینے کی بات کو چھوڑ کر ۔۔۔جس میں عالیان نے صرف گردن ہلانے پر اکتفا کیا تھا۔۔ان دونوں کو پتہ ہی نہیں چلا کب کچھ گھنٹوں کا سفر يوں ہی کٹ گیا تھا۔۔اب وہ دونوں انڈیا میں ممبئی ایئرپورٹ پر موجود تھیں۔۔وہ دونوں یوں ہی بات کرتے کرتے باہر آ گئی تھیں۔۔۔ منہال نے جب آلیاں سے پوچھا۔۔۔عالی تمہیں ریسیو کرنے گھر سے کوئی آئیگا کیا___؟نہیں میں گھر والوں کو سرپرایسیڈ کرنا چاہتا تھا اس لیے کسی کو نہیں بتایا تھا۔۔اب بس ٹیکسی سی ہی جاؤنگا۔۔۔عالیان نے منہال کو بتایا تھا۔۔۔اور تم ایسا کیوں کروگے___؟منہال نے اسکو گھورتے ہوئے کہا۔۔۔یار جب تمہارا دوست ہے تو تم ٹیکسی کیوں لو گے ہمارے ساتھ چلوں ہم ڈراپ کر دے گے۔۔۔اب چلو باہر صرفان باہر انتظار کر رہا ہوگا "اور اچھے سے جانتے ہو اگر تھوڑی سی دیر ہوئی تو بھکّر کو کھانا کھلانا پڑ جائے گا۔۔۔جس بات پر دونوں کا کہکا بلند تھا۔۔عالیان منہال کا اتنی محبّت سے کہنے پر منا نہیں کے پایہ تھا۔۔۔ اس لیے وہ بھی اسکے ساتھ باہر آ گیا تھا جہاں صرفان" ویلکم ٹو ممبئی،، کا بورڈ لیے کھڑا تھا۔۔۔وہ دیکھوں کتنی نے صابری سے انتظار کر رہا ہے۔۔۔منہال نے صرفان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عالیان کو بتایا۔۔۔اُن دونوں نے صرفان پاس جاکر اسکو سلام کی تھی۔۔سلام کا جواب دے کر صرفان عالیان سے بولا یار تم کہا غائب ہو گئے تھیں۔۔۔تمہیں پتہ بھی ہیں تمہاری وجہ سے میں نے اپنی شادی بھی پوسٹپند کر دی تھی ابھی تک کنوارا بیٹھا ہوں__! کبھی تو تم دونوں مجھ پر رحم کھا لیا کرو۔۔ایک یہ ہے جسکو بیویوں کی طرح روں منانا پڑتا ہے۔۔اور ایک تو ہے جو جیل سے چھوٹنے کے بعد قیدیوں کی طرح ایسے غائب ہوا جیسے سارے دنیا کے قتل تونے ہی لیے تھیں۔۔۔وہ اب شروع ہو چکا تھا۔۔منہال اور عالیان کا اسکے باتوں کو سنکر ہس ہس کے برا حال ہوگیا تھا۔۔۔منہال جب بھی اس لڑکی کہ چہرہ اپنی آنکھوں کے سامنے لہراتا دیکھتا تو وہ اپنے ہے گم ہر تکلیف بھول جاتا "اور اسکا جب نام سنتا تو ہونٹوں سے مسکراہٹ بھی جدا نہ ہوتی ۔۔۔۔لیکن وہ ابھی سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔کہ ایسا کیوں ہوتا __؟ واہ بھئی واہ کیا سنگتی ہیں۔۔۔ہنس مکھ کے ساتھ ہنس مکھ ہو گئے ہیں ہمارے فلم انڈسٹریز کے کنگ ms صاحب صرفان من ہی من منہال کی نظر اتارتے ہوئےبولا۔
دیکھ لو ہم تو ایسے ہی ہیں ۔۔۔عالیان ایک ادا سے اپنے کولر کو اٹھاتے ہوئے بولا۔۔ ہننننننن ...!بڑی ہی خوش فہمیاں پال رکھی ہے جناب نے صرفان نے جیسے ناک پر سے مکھّی اڑائی تھی۔۔۔خوش فہمیاں نہیں ہماری محبّت کا اثر ہے۔۔۔ہننننننن۔۔محبّت بس رہنے ہی دے جناب ۔۔۔منہال جانتا تھا اگر یہ دونوں اب لڑنا شروع ہو گئے تو گھر جانے سے پہلے اسکو سائکو کے پاس ضرور جانا پڑ جائے گا۔۔اس لیے وہ آہستہ آواز میں گرّاتیں ہوئے بولا۔۔بس رہنے بھی دو۔۔۔۔تم دونوں چھوٹے بچّے نہیں ہو جو ہر بات پر ڈانٹا جائے" کچھ تو خدا کا خوف کر لیا کرو اللہ کے بندے" جو کہیں پر بھی شروع ہو جاتے ہو۔۔تم سے تو اچھے دو سال کے بچّے ہوتے ہیں کم سے کم انکو یہ تو پتہ ہوتا ہے پاپا سے کب پیسے مانگنے ہے اور کب نہیں۔۔۔لیکن تم "تم دونوں کو تو اللہ ہی پوچھے گا۔۔۔منہال نے ان دونوں کو بہت زیادہ ڈانٹا اور پھر اُن دونوں کو آرڈر دیا چلو اب یہ یہیں کھڑے ہو کر میرے چہرے کا طواف کرتے رہوگے۔۔۔لیکن ہمارے صرفان صاحب کسی کی سن لے۔۔۔منہال کی سوچ کے مطابق تھا کہ ہزار بے شرم اس دنیا سے رخصت ہوئے تھیں جب یہ ایک بے شرم پیدا ہوا تھا۔۔۔اور وہ ایسا اسکو بول بھی دیتا تھا ۔۔جس پر صرفان اپنے دانتوں کی نمائش کرتا تھا۔۔۔اور اسکی اس ہی حرکت سے منہال کو غصّہ بہت اتا تھا۔۔صرفان دنیا جہاں کی معصومیت لیے بولا ۔۔ہاں تو ہم ابھی بچّے ہی تو ہے۔۔کون سا تمہاری طرح سڑے کریلے ہیں۔۔۔کیا کہا __؟ منہال اسکو غصے سے گھورتے ہوئے بولا۔ک کچھ بھی نہیں میں تو یہ بول رہا تھا "ہاں چلو__!وہ یہ بول کر جلدی سے گاڑی کے پاس چلا گیا تھا ۔۔۔اور وہ دونوں بھی اسکے پیچھے چل دیئے تھیں۔۔
*******************
مائشا کو ہوش آیا گیا تھا۔۔ دادو کو جب پتہ چلا کی مایو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور وہ بےہوش ہو گئی تو وہ تورنت گاؤں سے واپس آ گئی تھی " اور اب وہ سب مائشا کے روم میں موجود تھیں۔۔۔ملک شاہ نے اس سے بہت پوچھا تھا کہ وہ بےہوش کس وجہ سے ہوئی تھی لیکن مائشا نے یہ بول کر ٹال دیا تھا کہ بس ایسے ہی کمزوری کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی تھی۔ملک شاہ اپنی بھتیزی کو بہت اچھے سے جانتے تھے وہ بلکل اپنے بابا پر گئی تھی۔۔جو سب کا ہی سوچتی تھی لیکن اپنے لیے کچھ بھی نہیں۔۔ملک تایا نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہووے اسکو ہمیشہ خوش رہنے کی دعا دی تھی۔۔اور روم سے باہر نکلتے چلے گئے تھیں۔۔۔دادو جو بہت دیر سے چپ تھی" ملک شاہ کے باہر جاتے ہی بہت زور دے کر دادو نے نور سے پوچھ ہی لیا تھا۔۔۔ اور نور نے کوئی بھی بات بنا چھپائیں دادو کی گوش گزار کر دی تھی۔۔۔دادو نے جب پوری بات سنی تو انکو بہت غصّہ آیاتھا لیکن وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔۔۔کیونکہ مائشا ہمیشہ انکو منا کر دیا کرتی تھی۔۔دادو اسکو سمجھاتی بھی تھی پر وہ ہمیشہ کہتی نہیں دادو نہیں میں نے اپنا معاملہ اللّہ پر چھوڑ رکھا ہے" بے شک وہ بہت اعلیٰ ترین فیصلہ کرتا ہے۔۔جب بندہ اپنا ہر معاملہ اللّٰہ تعالیٰ کے سپُرد کر دیتے ہیں تو" اللہ تعالیٰ ہمیشہ وہ ہی فیصلہ کرتا ہے جس میں اسکے بندے کی بہتری ہو،،۔۔نور نور بیٹا ....دادو اسکو بہت دیر سے پکار تی ہوئی شاید روم کی طرف ہی آرہی تھی۔۔نور ایک دم ماضی سے نکلتی ہوئی ہڑ بڑا کر بولی ہاں دادو ابھی آئی۔۔پھر اس نے مایو کی طرف دیکھ کر اسکو بولی" مائشا کھانا کھا کر دوائی لے لینا میں دادو کو دیکھتی ہوں وہ اسکو کھانے کی ہدایت دے کر روم سے باہر دادو کی بات کو سن نے چلی گئی۔۔اور مائشا اس لڑکی کا اپنے آپ سے اتنی محبّت دیکھ کر پھر سے رونے لگی۔۔کچھ شخص ایسے ہوتے ہیں اگر خوشی ہو تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے رونے لگتے ہیں اور گم میں بھی وہ اپنے رب کا ہی شکر ادا کرتے ہے۔۔اُن میں سے ایک مائشا بھی تھی۔۔اسکی تربیت اسکے بابا نے بہت اچھے سے کی تھی۔۔اسکو ہر حالات میں اللّٰہ کا شکر ادا کرنا سکھایا تھا۔۔اُس نے نور کی ہدایت کے مطابق تھوڑا سا کھایا تھا اسکا بلکل بھی دل نہیں کر رہا تھا لیکن وہ نور کی اتنی محبّت سے کھانا لانے کو جائے بھی جانے نہیں دے سکتی تھی اس لیے اس نے دو چار نوالے جہر مار کر کے کھا ہے لیے تھیں اور پھر دوائی لے کر عشا کی نماز کے لیے وضو کر نے باتھرُوم چلی گئی تھی۔۔
*******************
کالے رنگ کی سیاہ کار حویلی کے گیٹ پر رکی تھی ۔۔۔یار تم بھی چلوں عالیان نے پھر سے کوشش کی ۔۔جب صرفان بہت ہی شائستہ لہزے میں بولا نہیں یار پھر کبھی "اب منہال بھی بہت تھک گیا ہے اور تم بھی جاؤ تم بھی ریسٹ کرو ۔۔بہت تک گئے ہوگے اتنے دور کے سفر سے اب ہم چلتے ہے پھپپو انتظار کر رہی ہوگی۔۔اوک ٹھیک ہے_! لیکن کل تم دونوں کا ڈنر میری طرف سے اور وہ بھی اپنی پیاری سی كذن کے ہاتھوں کا۔۔اس سے پہلے منہال کوئی جواب دیتا صرفان بولا" اوکے ڈن__! عالیان بولا ٹھیک ہے" اللّٰہ حافظ۔۔اللّٰہ حافظ بول کر صرفان نے گاڑی زن سے آگے بڑھا لی تھی۔۔۔کیا ضرورت تھی ڈنر کے لیے ہاں کرنے کی منہال اسکو اپنی گھوریوں سے نوازتے ہووے بولا ۔۔کبھی پیٹ بھی بھرتا ہی کِ نہیں __؟جہاں کھانا وہاں تم ہمیشہ حاضر رہتے ہو۔۔۔کبھی اللّٰہ کے بندے بھوکے بھی رہ لیا کرو۔۔یا ہمیشہ کھانا کھانا اور بس کھانا....منہال ایسے بول رہا تھا جیسے وہ اسکو ابھی کچّا چبا جائے گا۔۔یار کیا ہو گیا __؟ ڈنر کے لیے ہاں ہی تو بولا ہے۔۔اور اگر تم اُسکی كذن کے ہاتھوں کا کھانا خاؤگے نہ تو اتنا خاؤگے اتنا زیادہ کھا جاؤ گے اپنی یہ ڈائیٹنگ شائیٹنگ کو بھی بھول جاؤ گے سمجھے۔۔صرفان کار ڈرائیو کرتے ہوئے بولا ۔۔بس بس رہنے دو بڑے آئے اُسکی كذن کی تعریف کرنے والے۔۔مینی ابھی تو صرف میں ہی تعریف کرتا ہوں پھر تم بھی اسکی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دوگے۔۔اچھا ٹھیک ہے پھر وہ بھی کل دیکھ لینگے منہال اچھا کو لمبا خیچ کر اس سے بولا۔۔۔ہاں دیکھ لینا کس نے منع کیا ہے ۔۔اور تمہیں پتہ بھی اسکی كذن کون ہے __؟صرفان نے گردن کو اسکی طرف گھما کر اس سے پوچھا تھا ۔۔۔۔مائشا__! منہال کے منہ سے بے اختیار اُسکا نام نکلا تھا"اوہ تو جناب جانتے ہیں صرفان نے اسکو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے اوہ پر زور دیا تھا۔۔صرفان تم مجھے گھورنا بند کرو۔۔۔ورنہ__؟ کیا یار کبھی تو مذاق کرنے کا موقع فراہم کر دیا کرو یہ ہمیشہ ہی ڈانٹتے رہتے ہو۔۔صرفان منہ لٹکاتے ہوئے بولا ۔۔اُس کے اس انداز پر منہال کا کہکا بے اختیار تھا۔۔ھاھاھاھاھا..... ھاھاھاھاھا۔۔۔۔شکل دیکھو اپنی مرر میں بلکل دو سال کے بچّے لگ رہے ہو۔۔منہال نے اسکا چہرا کار کے مرر کے سامنے کرتے ہوئے کہا تھا۔۔کوئی نی کوئی بات نہیں__! میرے جس بھی انداز سے تمہارے چہرے پر مسکراہٹ آئے میں اسکو ہمیشہ کرنے کے لئے تیار ہوں صرفان آنکھوں میں بے شمار محبّت لیے منہال کی طرف دیکھ کر بولا۔۔لیکن منہال کے چہرے پر ایک پل کی مسکراہٹ جو تھی "وہ ایک پل میں ہی سمٹی تھی" اب مسکراہٹ کی جگہ پھر سے سنجیدگی نے لے لی تھی۔۔اسکے چہرے کی سنجیدگی کو دیکھ کر صرفان بھی خاموش ہو گیا تھا۔۔۔اب وہ خاموشی سے ڈرائیو کے رہا تھا۔۔۔انکو سلمان ویلا پہنچتے پہنچتے رات کے دو بج گئے تھے۔۔سفر لمبا ہونے کی وجہ سے منہال بہت تک گیا تھا "اس لیے وہ اپنی ماما سے سلام دعا کرکے اپنے روم میں آ گیا۔۔
روم میں آتے ہی وہ کپڑے چینج کرکے ٹریس پر آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔کھلا شاف شفّاف آسمان "آسمان میں ٹم ٹماتے تارے فضاؤں میں خاموشی ٹھندی تیز ہوائیں اسکو سکون ڈے رہی تھی۔۔مائشا...اسکو کار میں ہونے والی گفتگو یاد آنے لگی تھی۔۔مائشا اس لڑکی کا یوں بے اختیاری میں نام لینا اسکو بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔وہ چاند کی چاندنی کو دیکھتے ہوئے خود سے ہی سوال کرنے لگا۔۔۔آخر اس لڑکی کا نام میرے منہ سے کیوں نکلا_؟اور اگر نکل ہی گیا تھا تو مجھے اُسکا نام لے کر ایک سکون سا کیوں ملا_؟ جب دل سے آواز آئی "کیونکہ وہ جیا سے بلکل مختلف ہے۔۔بلکل پاکیزہ_!ہاں وہ تو ہے۔۔منہال نے آج پہلی بار دل کو صحیح ٹھہرایا تھا۔۔لیکن مجھے اس سے کیا__؟وہ پھر کنفیوزڈ ہوتے ہوئے دل سے بولا۔۔وہ تو وہ جانتا ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا۔۔دل نے اس سے کہا۔۔میں اسکے بارے میں اتنا کیوں سوچ رہا ہوں___؟پھر سے منہال نے دل سے جواب مانگا تھا۔۔۔کیونکہ تم اسکو سوچ نہ چاہتے ہو۔۔تورنت جواب ملا۔۔شاید منہال نے دل کے جواب کو تسلیم کیا تھا۔۔اسکے آنکھوں کے سامنے مائشا کا چہرہ لہرانے لگا تھا۔۔کتنی خوبصورت تھی وہ یہ پھر منہال کو ہی لگ رہی تھی۔۔۔کیا مجھے محبّت ہو سکتی ہے__؟منہال خود سے بڑ بڑا تے ہوئے بے اختیاری کے عالم میں بولا۔۔جس پر دل نے لبّیک کہا تھا_! اگر تم چاہو تو۔۔۔لیکن اگر مجھے پھر سے دھوکہ ملا__؟منہال کے ذہن میں اس سوال نے جنم لیا تھا۔۔ایک بار آزما کر دیکھو۔۔۔دل سے جواب ملا۔۔آزمایا وہ جاتا ہیں جن پر تمہیں اعتبار نہیں ۔منہال نے دل سے کہا۔۔۔تو کیا تمہیں مائشا پر اعتبار ہے__؟دل نے اس سے پوچھا۔۔۔
اعتبار کے لیے ملاقاتیں ضروری ہوتی ہے۔۔۔تو کیا وہ ایک ملاقات کافی نہیں تھی ۔دل نے پوچھا۔۔نہیں۔۔انسان کو جان نے کے لیے اسکو جان پہچان ضروری ہوتی ہے۔۔اُسنے کہا۔ تو تم بناؤ نہ جان پہچان "کل سے اچھا موقع تمہیں پھر کبھی نہیں ملےگا_؟ دل نے اسکو سمجھایا تھا۔۔ویسے محبّت کے لیے انسان کو ایک جھلک ہی کافی ہوتی ہے۔۔اس ایک جھلک میں ہی تمہیں سب کچھ پتہ چل جاتا ہے۔۔اور پھر وہ لڑکی "وہ تو نور سے گندھی ہوئی لڑکی تھی جس کے چہرے سے اتنی اُجڑی ہوئی حالت میں بھی نور ہی چھلک رہا تھا۔۔میں کہتا ہوں منہال ایک بار صرف ایک بار میری مانو تم اسکو آزماؤ مت صرف محبّت کرو اس سے دل نے کہا۔۔نہیں کر سکتا__!کیونکہ میرا محبّت پر سے اعتبار آٹھ چکا ہے۔۔اُسنے کہا تھا۔۔محبّت کر نہیں سکتے یا پھر محبّت اور اس لڑکی سے نظریں چرا رہے ہو"کیونکہ محبّت تو تمہیں اس لڑکی کو دیکھ نے سے پہلے ہی ہو چکی تھی۔۔دل نے جیسے آئنہ دکھانے کی کوشش کی۔۔نہیں ہو سکتی بلکل بھی نہیں"کیونکہ منہال سلمان شاہ کو محبّت کبھی راس ہی نہیں آتی۔۔۔وہ زندگی میں ایک بار پیار کا روگ لگا چکا ہے۔۔جس کی سجہ وہ اب تک کاٹ رہا ہے اپنے بابا کی نفرت کی صورت میں اب میں اس سے پہلے وہ کچھ بولتا اُسکا دل بول اٹھا تھا۔۔کبھی روگ نہ لگانا پیار کا۔۔یہیں نہ۔۔؟ لیکن میں نہیں مانتا کیونکہ محبّت مجھ سے ہوکر گزرتی ہے۔۔اس لیے آج میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں تمہیں کبھی جیا ہادی سے محبّت نہیں ہوئی تھی۔۔وہ صرف وقتِ جذبہ تھا اور کچھ نہیں_!منہال تم موو آن تو کرو دیکھ نہ کبھی مایوس نہیں ہوگے ۔۔۔اور آگے تمہاری مرضی اور اس رب کائنات کی مرضی۔۔دل نے اسکو پھر سے سمجھانے کوشش کی تھی۔۔نہیں نہیں نہیںنہیں......منہال نے قرب سے آنکھیں بند کر لی۔۔تھی۔ان پانچ سالوں سے اسکے ساتھ ایسا ہی ہو رہا تھا۔۔جب بھی دل اسکو سمجھانے کی کوشش کرتا وہ چیخ کر دل کو چپ کروا دیا کرتا ۔۔۔لیکن کب تک کب تک۔۔؟" وہ ایسا کر سکتا تھا ۔۔ آج جو منہال سلمان شاہ محبّت نہ کرنے کا دعوے دار ہے ۔۔۔وہ کیا جانے اس رب ع کائنات کی مرضی ۔۔کیونکہ "وہ تو وہی کرتا ہے جس میں اُسے اپنے بندے کی بھلائی دکھتی ہے۔بے شک وہ"المجیب ، ہیں۔۔وہ دے کر خوش کرنا بھی چاہتا ہے اور لے کر آزمانا بھی۔۔۔اور جو اُسکی آزمائش اور خرا اتر جائے اسکو وہ دنیا اور آخرت دونوں جہاں کی خوشیوں کو نواز دیتا ہے۔۔۔
*********************
Assalamualaikum
Kabhi rog na lagana piyar ka epi 6 complete huwa..😍😍😍
must share your reviews & comments
🤗🤗🤗🤗🤗🌟😄
fiza Tanvi
27-Mar-2022 09:42 AM
Amazing
Reply